مشرق وسطی اور کرد وں کا مستقبل سیّد سلمان مہدی ( یہ کالم 'ہم سب' پر مورخہ 21 دسمبر کو شائع ہوچکا ہے) کردستان کے دور دراز پہا...
مشرق وسطی اور کرد وں کا مستقبل
سیّد سلمان مہدی ( یہ کالم 'ہم سب' پر مورخہ 21 دسمبر کو شائع ہوچکا ہے)
کردستان کے دور دراز پہاڑوں میں، ایک کرد کسان نے عکاسی کی،
"ہمارا وطن پہاڑ ہے۔" یہ پائیدار جذبہ کرد عوام کی لچک اور المیے کو اپنی
لپیٹ میں لے لیتا ہے، ایک ایسی قوم جس کی کوئی ریاست نہیں، دنیا کے چند انتہائی غیر
مستحکم خطوں میں بکھری ہوئی ہے۔ آج جب ترکی کے فضائی حملے شمالی شام اور عراق میں
کردوں کے مضبوط ٹھکانوں پر کر رہے ہیں، کرد خود کو ایک بار پھر بڑی جغرافیائی سیاسی
قوتوں کے رحم و کرم پر پا رہے ہیں۔ جہاں
شام میں حافظ بشارلاسد کا اقتدار ختم ہوا وہا ں کا نیا بادشاہ ابو احمد
الجولانی ان کے لئے تکلیف کا باعث بنے یا
تحسین کا کسے خبر ؟
ایک صدی پہلے، 1920 میں Sèvres کے
معاہدے میں کرد ریاست کا وعدہ کیا گیا تھا۔ لیکن یہ وعدہ قلیل مدّتی تھا،جسے سلطنت عثمانیہ کے زوال اور 1923 میں لوزان کے معاہدے کے ذریعے منسوخ کر دیا
گیا، جس نے کردوں کو ترکی، عراق، ایران اور شام میں تقسیم کر دیا۔ آج، وہ دنیا کا
سب سے بڑا بے وطن نسلی گروہ بنے ہوئے ہیں، جن کی تعداد 3 کروڑ سے زائد ہے۔ شناخت، خود اِرادیت، اور بقاء کے لیے ان کی
جدوجہد مشرق وسطیٰ اور اس سے آگے کی جغرافیائی سیاست کو تشکیل دیتی ہے۔
کردوں نے طویل عرصے سے دوہری کردار ادا کیا ہے: اہم علاقائی
کھلاڑی اور ہمیشہ کے لیے قربانی کے بکرے۔ عراق میں، کردستان کی علاقائی حکومت (KRG) تیل کے خاطر خواہ ذخائر پر اپنے
کنٹرول کی وجہ سے نمایاں خود مختاری کا استعمال کرتی ہے۔ اس کے باوجود یہ خودمختاری
نازک ہے، جسے بارزانی کی زیرقیادت کردستان ڈیموکریٹک پارٹی
(KDP) اور طالبان کی زیرِقیادت پیٹریاٹک یونین آف کردستان (PUK) کے درمیان اندرونی دشمنیوں نے چیلنج
کر رکھا ہے۔ یہ تقسیم بغداد کے ساتھ ان کی مذاکراتی طاقت کو کمزور کرتی ہے اور
عالمی اتحادیوں کے ساتھ تعلقات کو پیچیدہ بناتی ہے۔ عین ممکن ہے کہ شام کے 5 ٹکڑے ہوں اور 5 حکومتیں بنے لیکن ان پانچوں میں ایک
بڑا علاقہ ان کردوں کا بھی ہے۔ اور ان کے ساتھ
ترکی کی ہمایت یافتہ حکومت کیا کرے
گی یہ چند دن تک واضح ہوجائے گا۔
شام میں، شامی ڈیموکریٹک فورسز
(SDF) کے تحت کرد فورسز نے
ISIS کو شکست دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ پھر بھی ان
کی کامیابی ایک قیمت پر آئی ہے۔ SDF کے لیے
امریکی حمایت نے ترکی کی مخالفت کی ہے، کیونکہ ترکی اپنے ملک میں موجود کردوں سے خوفزدہ اور مستقبل میں جو اس گروپ کو کردستان ورکرز پارٹی (PKK) کی توسیع کے طور پر دیکھتا ہے، جو
ایک نامزد دہشت گرد تنظیم ہے۔ اس کے جواب میں، ترکی نے سرحد پار فوجی کارروائیاں
شروع کیں، خطے کو غیر مستحکم کیا اور انسانی بحرانوں کو بڑھاوا دیا۔
کردوں کے روابط داعش اور القاعدہ سے دوستانہ بھی نہیں، اور ان ہی کی ذیلی
تنظیم تحریرالشام حکومت میں آرہی ہے ۔
ترکی کی طرز پر ایران نے بھی اپنی کرد آبادی کے خلاف کریک ڈاؤن
کیا ہے، خاص طور پر خواتین کے حقوق اور حکومتی جبر کے خلاف حالیہ مظاہروں کے
دوران۔ کرد علاقے اختلافات کا گڑھ بن چکے ہیں، جنہیں تہران کی سکیورٹی فورسز کی
جانب سے سخت جوابی کارروائیوں کا سامنا ہے۔
جیسا کہ ہم دیکھتے ہيں کہ انسان رنگ و نسل اور زبان سے شناخت
تو ہو تے ہیں لیکن کی واضح تصویر ان کے رہن سہن، علاقائی اثر،
دوسروں کا ان سے سلوک انہیں ایک نیا درجہ
دیتا ہے، جیسے کوئٹہ اور پشاور کے پٹھان
الگ فطر ت کے حامل ہوتے ہیں ویسے ہی افغانستان کے پٹھان ان دونوں کافی مختلف ہوتے
ہیں۔ اسی طرح کرد جو ایک وسیع و عریض جغرافیے سے جڑیں انہیں ایک تصور نہیں کیا
جاسکتا ۔ ویسے کردوں کا تقافتی ، مذہبی تنوع (Diversity) اور ان کی جدوجہد کا ایک درجہ بڑھاتی ہے۔
جبکہ کردوں کی اکثریت شافعی مکتب کی پیروی
کرنے والے سنی مسلمان ہیں، ان کی برادریوں میں یزدی، عیسائی اور یارسان (پارسی) عقیدے کے
پیروکار بھی شامل ہیں۔ ان کا مختلف مذاہب، نظریات، سماج سے ہونا، ایک نسل کے
باوجود ان میں انتشار کی وجہ بنتا آیا ہے
اور بیرونی طاقتوں کیلئے انہیں کچلنا آسان رہا ہے ۔مثال کے طور پر، یزدیوں کو ISIS کے ہاتھوں نسل کشی کا سامنا کرنا
پڑا، یہ ایک ایسا ظلم ہے جس نے کرد معاشرے میں اقلیتی گروہوں کی کمزوری کو واضح کیا۔
ان کے مشترکہ ورثے کے باوجود، ان مذہبی اختلافات نے کبھی کبھار خود کردوں کے درمیان
اتحاد کو کشیدہ بنایا ہے۔
کردوں کی تاریخ خونی جدوجہد سے بھری پڑی ہے، ان کا جغرافیائی اور شناختی مسئلہ بالخصوص ایراق،
ایران، شام اور ترکی ممالک کی سختیوں کی وجہ سے پر تشدد
رہا ہے۔ ان کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ جن علاقوں میں یہ رہتے ہیں وہاں قدرتی
وسائل بے تحاشہ ہوتے ہیں جیسے کہ تیل۔ اور مشرق وسطی سے لیکر یورپ اور وسطی ایشیا تک کو جوڑنے والی
سرحدیں اور علاقے ان کی آبادی سے بھرپور ہیں جو عالمی طاقتوں کے عزائم کو دشوار بناتی ہیں۔ لیکن افسوس ہے کہ یہ انہیں کیلئے شطرنج کے
موہرے بھی بن جاتے ہيں۔
امریکہ کی مسلم انتہا
پسندوں کے خلاف جنگ میں کردوں نے ہمیشہ
مدد کی، لیکن ان کو امریکی امداد اور تحفظ
کچھ پراسرار شرائط پر ہی ملا ہے۔ جیسا کہ 2019 میں امریکہ نے شمالی شام کے کچھ
علاقے خالی کروائے تو کردوں کو ترکی کے
ظالمانہ رویّے کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ جس کے خدشات ایک بار پھر 8 دسمبر 2024 کے
بعد سے بڑھ رہے ہیں۔
دوسری جانب روس نے ترکی کے ساتھ تعلقات برقرار رکھتے ہوئے کرد
گروپوں اور اسد حکومت کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرتے ہوئے زیادہ عملی انداز
اپنایا ہے۔ یہ توازن اکثر خود مختاری کے لیے کردوں کی خواہشات کی قیمت پر روس کو
خطے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے میں مددفراہم کرتا ہے۔ جبکہ ایران اور سعودی عرب
اپنی وسیع جغرافیائی خلش میں کردوں کو موہرہ بھی بناتے آئے ہیں اور آگے بھی شاید ایسا ہی ہو۔ ریاض عراق اور شام میں
ایرانی اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لیے کردوں کی خودمختاری کی بھرپور حمایت کرتا
ہے، جب کہ تہران اپنے پرامن مغربی صوبوں پر کنٹرول برقرار رکھنے کے لیے کردوں کی
بغاوتوں کو وقتاً فوقتاً دباتا بھی رہتاہے۔
کردوں کا استحصال
اور ان کی بے وطنی کی قیمت انہوں نے اپنے خون سے چکائی ہے ۔نقل مکانی، ثقافتی دباؤ
اور معاشی پسماندگی روزمرہ کی حقیقتیں ہیں۔ ترکی میں، کرد زبان اور ثقافت کو کئی
دہائیوں سے جبر کا سامنا کرنا پڑا ہے، جہاں کارکنان اور سیاست دانوں کو انسداد
دہشت گردی کے قوانین کے تحت اکثر جیل بھی بھیج دیا جاتا ہے۔ شام میں، جنگ
نے کرد برادریوں کو تباہ کر دیا ہے، بہت سے لوگ پناہ گزینوں کے طور پر بھاگنے پر
مجبور ہیں۔
حتیٰ کہ عراقی کردستان میں، جو کہ سب سے زیادہ خودمختار کرد
علاقہ ہے وہاں بھی خوشحالی، معاشی بدحالی
کاشکار ہے، اور سیاسی بدعنوانی ان کی گورننس
کو کمزور کرتی ہے۔ دنیا کے سب سے بڑے غیر استعمال شدہ تیل کے ذخائر میں سے ایک
ذخیرہ رکھنے کے باوجود، بغداد کے ساتھ
محصولات کی تقسیم اور علاقائی حدود پر تنازعات اکثر اس خطے کو مالی بحران کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔2024 کا اختتام اور
شام کی حکومت کا تختہ الٹنا، یہ سال بھی کردوں کیلئے اچھا نا رہا کیونکہ
ترک ہمایت یافتہ تحریر الشام کی حکومت
میں ان کے مسائل حل ہوتے نظر نہیں آتے اور 20 جنوری 2025 سے آتی ڈونلڈ ٹرمپ
کی حکومت کا ارادے ابھی شک و شبہات کی نظر ہیں۔ مشرق وسطی کی نئی بنتی بگڑتی تصویر
میں ان کی سالمیت پھر خطر ے میں ہے۔
تاہم، ان کے مزاج میں لچک امید کی ایک کرن پیش کرتی ہے۔ عراق، شام، ترکی اور ایران
میں کردوں کی جدوجہد کا سلسلہ جاری ہے۔اپنی ثقافتی شناخت پر زور دینے، سیاسی
نمائندگی کے لیے لڑنے، اور بدلتے ہوئے جغرافیائی سیاسی مناظر کو اپنانے کی کوشش کر
رہے ہيں۔لیکن اتحاد ضروری ہے۔ کرد دھڑوں کے درمیان اندرونی تقسیم ان کی اجتماعی
سودے بازی کی طاقت کو کمزور کرتی ہے اور انہیں بیرونی طاقتوں کے استحصال کا شکار
بناتی ہے۔
مشترکہ ثقافتی اور سیاسی اہداف سے جڑا ایک متحدہ کرد محاذ عالمی
سطح پر ان کی پوزیشن کو مضبوط کر سکتا ہے۔ امریکہ ، روس سعودی عرب ، ترکی، اور ایران سمیت عالمی برادری بھی
اگر ذمہ داری اٹھائے تو انہیں
کاروبار کے اتحاد کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے اور کردوں کے حق خود
ارادیت کو تسلیم کرنا چاہیے۔ طویل عرصے سے عالمی طاقتوں نے کردوں کے ساتھ عوام کے
بجائے ایک آلہ کار کے طور پر بد تر سلوک کیا
ہے۔ اب نظریات بدلنے کی ضرورت ہے۔کردوں کی تاریخ مشکلات کے خلاف جنگ میں سے ایک ہے جہاں غلامی، آزادی، شناخت و غریب
الوطنی سے ان کی کروڑوں کی آبادی جونج رہی ہے۔ وہ غداریوں، جنگوں اور حالیہ تباہی سے بچ گئے ہیں، پھر بھی ان کی خواہشات ثابت قدم
ہیں۔ جیسا کہ دنیا مشرق وسطیٰ کی بدلتی ہوئی تناظر کو دیکھ رہی ہے۔
ایک سوال بہت بڑا ہے:
کیا کرد آخر کار وہ
پہچان حاصل کر پائیں گے جس کی وہ ایک صدی سے زیادہ عرصے سے کوشش کر رہے ہیں، یا
تاریخ اپنی غفلت اور دھوکہ دہی کے چکر کو دہراتی رہے گی؟
اس کا جواب نہ صرف علاقائی اور عالمی طاقتوں کے اقدامات میں ہے
بلکہ کردوں کی اپنی جغرافیائی سیاسی حقیقت کی پیچیدگیوں کو متحد اور نیویگیٹ کرنے
کی صلاحیت میں بھی ہے۔
No comments