ناقص عدالتی نظام بڑھتی ہوئي بدعنوانی اور ناکام طرز ِحکمرانی پاکستان کا عدالتی نظام سنگین مسائل کا شکار ہے، جن میں شفافیت کی کمی،...
ناقص عدالتی نظام بڑھتی ہوئي بدعنوانی اور ناکام طرز ِحکمرانی
پاکستان کا عدالتی نظام سنگین
مسائل کا شکار ہے، جن میں شفافیت کی کمی، عدالتی معاملات میں مداخلت، اور وسیع
پیمانے پر پھیلی بدعنوانی شامل ہیں۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے کرپشن پرسیپشن انڈیکس (CPI) 2024 اور ورلڈ جسٹس پروجیکٹ کے رول آف لا ء انڈیکس 2024 کے مطابق، پاکستان میں غیر مستحکم ادارتی نظام کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ ان رپورٹوں سے ظاہر
ہوتا ہے کہ عدالتی نگرانی نہایت نازک موڑ پر ہے، سیاسی قوتیں عدالتی نظم و ضبط میں مداخلت کرتی ہیں، اور میڈیا کی آزادی کو
محدود کیا جا رہا ہے، جبکہ سرکاری اداروں میں کرپشن مزید فعل ہورہی ہے۔
حال ہی میں آئینی ترامیم،
سائبر قوانین میں سختی، اور عدلیہ کے احتجاجات نے پاکستان کے قانونی نظام اور سول
سیکٹر میں مزید تناؤ پیدا کر دیا ہے۔ پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (PECA) میں
ترامیم کے ذریعے ڈیجیٹل آزادیوں پر مزید قدغن لگائی گئی، جبکہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے ذریعے چیف جسٹس کے اختیارات کو بھی کمزور کیا گیا۔
وکلاء اور ججوں نے ان تبدیلیوں کو عدلیہ کی آزادی اور منصفانہ قانونی کارروائی کے
لیے سنگین خطرہ قرار دیتے ہوئے شدید
احتجاج بھی کیا۔
قانونی نظام پر بین الاقوامی
ادارتی کے 2024 کی رپورٹ
ورلڈ جسٹس پروجیکٹ کے رول آف لا انڈیکس میں 142 ممالک کو آٹھ بنیادی پہلوؤں کی بنیاد پر پرکھا
جاتا ہے، جن میں عدالتی نظام کی مضبوطی، قانونی دیانت داری، اور حکمرانی کا معیار
شامل ہیں۔ پاکستان کا تازہ ترین درجہ 142 میں سے 129 واں ہے، جو عدلیہ کی آزادی،
حکومتی احتساب، اور بدعنوانی کی روک تھام جیسے شعبوں میں مسلسل بگڑتی ہوئی صورتحال کی
عکاسی کرتا ہے۔
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے
والی تنظیموں کے مطابق، پاکستان کو فوری عدالتی اصلاحات کی ضرورت ہے، کیونکہ یہاں چوبیس
لاکھ مقدمات زیرِ التوا ہیں، جن میں 57,000 کیسز سپریم کورٹ میں زیرِ التوا ہیں۔
عدالتی عمل میں تاخیر، ججوں کی کمی، اور ناکافی عدالتی سہولیات مسائل میں مزید
اضافہ کر رہی ہیں۔ پاکستانی نظامِ عدالت عدالتوں میں 4,144 ججوں کی منظور شدہ تعداد میں سے 1,005 ججز کی کمی ہے، جس
کی وجہ سے عدلیہ صرف 75 فیصد استعداد کے ساتھ کام کر رہی ہے جس سے رفتار مزید سست
ہوگئی ہے۔
احتساب ، مواخزے اور بدعنوانی
پاکستان کا عالمی سطح پر حکومتی احتساب کے حوالے سے 103 نمبر پر ہے۔ جبکہ چیف
جسٹس کے اختیارات محدود کرنے والے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے ذریعے
سیاسی مداخلت میں اضافہ ہوا، جس سے عدلیہ کی خود مختاری مزید کمزور ہوئی ہے۔ اسی
طرح، میڈیا کی آزادی کو بھی شدید خطرات لاحق ہیں جس میں پیکا ایکٹ کی ترامیم شامل
ہیں۔
بدعنوانی کے حوالے سے، پاکستان
142 ممالک میں سے 120 ویں نمبر پر ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق، 35 فیصد پاکستانیوں کا ماننا ہے کہ گزشتہ سال
کے دوران بدعنوانی میں مزید اضافہ ہوا، اور ہر چار میں سے ایک شہری بنیادی خدمات
کے لیے رشوت دینے پر مجبور ہوتا ہے۔ سب سے
زیادہ کرپشن کا شکار پولیس اور عدلیہ ہوئے
جس سے عوام کا عدالتی نظام پر اعتماد
متزلزل ہو رہا ہے۔ جس کی وجہ سے عدالت
باہر سیٹلمنٹ اور ممنوع جرگہ سسٹم تقویت پارہا ہے۔
آزادیِ رائے اور بنیادی حقوق
کی پامالی
پاکستان بنیادی انسانی حقوق کے
تحفّظ میں 142 ممالک میں سے 125 ویں نمبر پر ہے۔ حکومت نے سیاسی تنقید کو دبانے
اور مذہبی و نسلی اقلیتوں کے خلاف جبر میں اضافہ کر دیا ہے۔ اس کی مثالیں سینئر
صحافی ارشد شریف کا قتل اور یوٹیوبر عمران ریاض خان کی جبری جلاوطنی سرِفہرست ہیں۔ خواتین کے حقوق بھی خطرے میں ہیں،
جیسا کہ صبیحہ بتول شاہ کا غیرت کے نام پر قتل اور نومبر 2024 میں شمال مغربی
پاکستان میں چھ خواتین کے قتل کے واقعات ظاہر ہوتا ہے کہ اب یہ عوامی حفاظت میں ناکام ہوگیا ہے۔
26 ویں آئینی
ترمیم اور عدلیہ پر سیاسی دباؤ
پاکستان کی عدلیہ پر سیاسی
دباؤ میں اضافہ ہو رہا ہے، جس کی ایک مثال اکتوبر 2024 میں منظور ہونے والی 26ویں آئینی ترمیم ہے، جس کے تحت سپریم کورٹ کے ججوں کی تقرری کا اختیار عدلیہ سے لے کر مقننہ
کو دے دیا گیا۔ ماہرین قانون نے اس ترمیم کو عدلیہ کی آزادی پر حملہ قرار دیا ہے۔
جنوری 2025 میں، اسلام آباد میں سپریم کورٹ کے باہر ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں
وکلا اور پولیس کے درمیان شدیدجھڑپیں
ہوئیں، جن میں متعدد گرفتاریاں اور کئی افراد زخمی ہونے کے واقعات پیش آئے ہیں۔
پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز (ترمیمی) ایکٹ 2025 نے انٹرنیٹ آزادی کو مزید محدود کر دیا ہے۔ اس قانون کے
تحت 'جعلی معلومات' پھیلانے والے افراد کو تین سال تک قید کی سزا دی جا سکتی ہے،
لیکن 'جعلی معلومات' کی کوئی واضح تعریف موجود نہیں، جس سے صحافیوں اور حکومت کے
ناقدین کے لیے خطرات و تشویش مزید بڑھ گئ ہے۔ ہیومن
رائٹس واچ اور ایمنسٹی
انٹرنیشنل جیسے ادارے اس قانون کو ڈیجیٹل آزادی کے خلاف اقدام قرار دے رہے ہیں۔
فوری اصلاحات
پاکستان کے عدالتی نظام، قانون
نافذ کرنے والے اداروں، اور گورننس کے ڈھانچے کو فوری اصلاحات کی ضرورت ہے، کیونکہ
بدعنوانی، سیکیورٹی خدشات، اور سیاسی مداخلت ملک کے استحکام کو کمزور کر رہے ہیں۔
حکومت کو شہری آزادیوں کے تحفظ، عدلیہ کی خود مختاری کو یقینی بنانے، اور مؤثر
انسداد بدعنوانی اقدامات کو نافذ کرنے کے لیے فوری اور ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے۔
اگر یہ اصلاحات نہ کی گئیں، تو پاکستان کو مزید عدم استحکام کا سامنا کرنا پڑے گا،
جس سے نہ صرف سرمایہ کاری متاثر ہوگی بلکہ جمہوری اقدار خطرے میں پڑ نے کا خطرہ ہے۔
No comments