بے روزگار کی زندگی اور پاکستانی نظام کی درندگی السّلام و علیکم میری بدقسمتی کی شروعات میرے آئی ٹی گریجویٹ ہونے کے بعد شروع ہوئی ۔ جس ک...
بے روزگار کی زندگی اور پاکستانی نظام کی درندگی
السّلام و علیکم
میری بدقسمتی کی شروعات میرے آئی
ٹی گریجویٹ ہونے کے بعد شروع ہوئی ۔ جس کی سب سے بڑی وجہ سندھ کا ڈومیسائل اور
سندھ کے ایک چھوٹے قصبے کا رہائشی ہونا میرے خاندان کی سب سے بڑی غلطی رہی ہے۔
لیکن میرا شعور بھی کم قصوروار
نہیں۔ کبھی سوچتا ہوں اگر جنرل پرویز مشرّف مجھے سرکاری نوکری ملنے کے بعد الیکشن
کرواتے تو شاید میں آج ایک کامیاب انسان ہوتا، لیکن ادھر مجھے ڈگری ملی اور ادھر
انہوں نے پیپلز پارٹی کو حکومت دی۔ میرے والدین نے اپنا کثیر سرمایہ ہم بہن
بھائيوں کی تعلیم پر خرچ کردیا۔ جب لاڑکانہ کی گلیوں میں پی پی کے جیالے نوکریوں
کے اپائٹمنٹ لیٹر بیچ رہے تھے ، تب ہمارے پاس پیسے ہی نہیں تھے۔ اور جب تھوڑے بہت
آئے تو کلرک کی نوکر ی بھی 8 لاکھ سے مہنگی ہوگئی ، اوپر سے میں ایک پنجابی جو
سندھ کا شہری ہے تکلیف میں آگیا، خیر تکلیف تو میرے سندھی ساتھیوں نے بھی بہت
اٹھائی چونکہ بیچارے شریف ماں باپ کے بچے تھے ان کا بھی سیاست سے کوئي لینا دینا
نہیں تھا نا کوئي منسٹر رشتے دار تھا اور کسی کا تھا بھی تو انہیں حرام کھانے
والوں میں شمار کرتا اور کنارا کشی اختیار کرتا۔ خیر 2013 میں پھر الیکشن اور لیکن
جیت پیپلز پارٹی کی ہی ہوئي اور اس ریٹ پہلے سے بڑھ گئے اور ایم کیو ایم اور دیگر پارٹیوں
کے احتجاج کی وجہ سے سرکاری نوکریوں پر پابندی کا آرڈیننس جاری ہوگیا ، ساتھ ہی
ساتھ پیپلز پارٹی کے کارکنوں کے شہر میں چھوٹے بڑے کاروبار، دکان اورزرعی ذمینوں
پر قبضے بھی اتنے ہوگئے کہ لوگ یہاں سے ہجرت کرنے لگے لیکن میں غریب کہاں جاتا ۔
وہیں دھکّے کھارہا ہوں۔
اب تو بلاول ہاؤس والے نوکری بھی تنخواہ کے حساب سے دینے لگے جس میں چپڑاسی ، مالی وغیرہ کی نوکری کی قیمت 24 مہینے کی تنخواہ اور کلر ک کیلئے 36 مہینے کی تنخواہ کے برابر قیمت لی جانے لگی، اگر افسری چاہئے تو 50 لاکھ کے بیانے سے بات شروع ہوتی تھی۔ لیکن اس ریٹ پر جو نوکری لے وہ اپنا کاروبار کیوں نا کرے پر اب اپنا کاروبار صرف بدمعاشوں کیلئے رہ گیا ہے۔ خیر جیسے کیسے یہ دن بھی گزرے اور 2018 میں عمران خان کی حکومت آئی لیکن سندھیوں کے نصیب میں جئے بھٹو کہنا ہی لکھا ہے۔ یہ 5 سال 2018 سے لیکر اب تک اور شاید آگے بھی قیامت خیز گزرے، اب تو اچھے خاصے کھاتے پیتے افراد بھی چپ سادھے بیٹھے ہیں۔ ہوٹل پر دوستوں نے چائے پینا بھی تقریبا چھوڑ ہی دیا، گھر کا راشن لینا ہی مصیبت بن گیا۔
کہتے ہیں سب عمران خان کا کیا دھرا ہے، لیکن یہ سب تو کہاں سے کہاں پہنچ گئے ، ذرداری کے رشتے داروں کی حویلیاں ، کاروبار، ڈبل کیبن گاڑیاں، عیاشی کرتے بچے، اور ہم غریب پہلے سے بدتر زندگی گزار رہے ہيں۔ اب بھی وہی دعوے ہیں کہ بلاول اگر حکومت میں آیا تو سندھ میں ترقّی لازمی آئے گی ، لیکن جو 15 سال ہم پریشان ہیں اسکا کیا کریں۔ ہمیں تو اب موت آنے کی تمنّا ہے۔ اللہ ان سب کو غرق نہیں کرتا تو ہمیں دنیا سے اٹھالے، یہاں تو پینے کا پانی بھی خراب، بجلی سارا دن نہیں ہے، مغرب کے بعد گھر سے نکلیں تو ڈاکو لوٹ لیتے ہیں اور کبھی کبھی تو بیچارے دن ہی اوور ٹائم لگاتے ہوئے لوٹتے ہیں، مزاحمت پر قتل کردیتے ہیں، پولیس الگ تنگ کرتی ہے۔ کوئی سرکاری ملازم کام نہیں کرتا، سب نظام کو کوس رہے ہيں اور فائدہ بھی اسی نظام سے اٹھا رہے ہيں۔میں سوچ رہا ہوں کے نوکریاں تو
ملنی نہیں، النور ،کرن، سکرنڈ شوگر ملز وغیرہ میں کام کیا لیکن تنخواہ سیکیورٹی
گارڈ برابر ملی وہ بھی مزدوروں کی طرح ہفتہ وار،پھر کسی کے بچوں کو ٹیوشن پڑھا ئی
تو وہ بھی کبھی بیچارے کبھی پیسے دے دیتے ہیں تو کبھی معافی مانگ لیتے ہیں۔ اب صرف
خاموشی ہے، موبائل میں بیلنس نہیں کے کسی کو کال کرلیں، سندھ پبلک سروس کمیشن سے
لیکر آئي بی اے سکھر ایس ٹی ایس تک ہرجگہ نوکریاں آئی ہم نے امتحان کی فیس ادا
کرنے اور پھر سکھر، کراچی، حیدرآباد و
شہید بینظیرآباد میں ٹیسٹ دینے پر لاکھوں روپے والدین کے خرچ بھی کئے لیکن
انٹرویوز دیتے دیتے تھک گئے ہیں پر نوکری کا کوئی آسرا نا ہوا، کبھی ان پرچی پر
سیلیکٹ ہونے والوں کی شکلیں دیکھتا تو تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے، نا بولنا جانے ،
نا لکھنا پڑھنا، بس رشوت لینا آتی ان گدھوں کو اور کوئی کام نہیں کرسکتے لیکن
تنخواہیں ہزاروں لاکھوں میں، ارے ہم جیسے کفایت شعار جو آج کے دور میں بھی کلرک کی
تنخواہ میں شکر باری تعالی سے گزبسر کرسکتے ہیں کیلئے کوئي ملازمت نہیں ، نا
سرکاری نانیم سرکاری۔ جو مل رہی ہیں ان میں خرچہ اتنا ہے کہ جو کمائیں وہیں کھائیں
گھر کے لئے کچھ نا بچائیں۔ مڈل اب تو دم توڑ چکی ہے لیکن ایک امید بندھی رہتی ہے
کہ موت سے پہلے شاید اپنے کفن و دفن کا انتظام ہم کرپائيں گے۔ حج و عمرہ والدین کو
کیا کرائیں ہم تو فاقوں سے ہی باہر نہیں آتے۔
Silent Struggles: A Tale of Unemployment in Pakistan's Unforgiving System
Introduction: In the heart of Sindh, where dreams should flourish, my journey took an unexpected turn after completing my IT degree. The echoes of my misfortune resonate not only from the constraints of the job market but also from the complexities embedded in the Pakistani system.
Section 1: A Domicile's Dilemma Hailing from a small town in Sindh, my family's domicile unwittingly became a hurdle in my pursuit of employment. The realization dawns that sometimes, circumstances beyond one's control play a pivotal role in shaping destiny.
Section 2: Dreams Deferred by Political Winds The political winds in Pakistan can alter destinies. Despite aspirations, the timing of the election and the change in government can redefine the fate of individuals. My dreams collided with political shifts, and the job market became an unpredictable terrain.
Section 3: Struggling Amidst Economic Turmoil As economic challenges gripped the nation, job opportunities dwindled, forcing many, including myself, into a desperate search for livelihood. The struggle intensified as the cost of living soared, and even basic necessities became elusive.
Section 4: Promises Unfulfilled Political promises echoed through the years, raising hopes for a brighter future. However, the reality on the ground often contradicted these assurances. The toll on the common people became more pronounced as the promises remained unfulfilled.
Section 5: Unseen Sacrifices and Unheard Cries Behind the scenes of political discourse, unseen sacrifices and unheard cries define the narrative of the unemployed youth. Dreams of a decent life, a stable job, and the ability to provide for one's family seemed like distant mirages.
Section 6: Desperation in Silence The silence of desperation envelops those grappling with unemployment. Attempts to secure a job, be it through interviews or rigorous tests, often lead to disappointment. The hope for a better future dwindles, and dreams are replaced by the harsh reality of survival.
Section 7: Balancing on the Brink Balancing on the brink of despair, thoughts oscillate between the basic needs of life and the unattainable aspirations of Hajj and Umrah. The struggle is not just for personal survival but also for the dignity of providing for one's aging parents.
Conclusion: A Cry for Change As I pen down my silent struggles, it echoes the collective cry for change. The system that promises progress needs a recalibration to ensure that opportunities are not elusive dreams but tangible realities for the youth of Pakistan.
Explore the heart-wrenching journey of an unemployed youth in Pakistan, battling the complexities of the system. This tale sheds light on dreams deferred, promises unfulfilled, and the desperate cry for systemic change.
#Unemployment #PakistanStruggles #YouthChallenges
No comments