سندھ پولیس کے نامور اور اچھی شہرت کے حامل افسر سابق SSP نیاز احمد کھوسہ کی بہاولنگر واقعہ پر تحقیقاتی تحریر اب فیصلہ آپ خود کریں تحری...
سندھ پولیس کے
نامور اور اچھی شہرت کے حامل افسر سابق SSP نیاز
احمد کھوسہ کی بہاولنگر واقعہ پر تحقیقاتی تحریر اب فیصلہ آپ خود کریں
بھاولنگر میں پولیس اور فوج کا آپس میں صلح ہوچکی ہے، اب آتے ہیں کہ اصل حقائق کی جانب جس کی وجہ سے مُلک کے دو بڑے ادارے یعنی بڑا بھائی چھوٹے بھائی سے لڑپڑا-
اصل حقائق :
ایس ایچ او رضوان کے پاس ایک سپاہی علی نام کا ہے، علی اور رضوان پولیس میں کانسٹیبل ایک ساتھ بھرتی ہوئے تھے بطور کانسٹیبل گیارہ سال تک ایک ساتھ کام کیا تھا !!!! اسی وجہ سے جہاں بھی کوئی اطلاع یا ریڈ ہوتا ایس ایچ او رضوان، کانسٹیبل علی کو اپنے ساتھ رکھتا تھا
کانسٹیبل علی نے ایک ملزم سے ایک پسٹل برآمد کیا اور ایس ایچ او رضوان نے ملزم سے چالیس ہزار لے کر اُس کو چھوڑ دیا ملزم نے پوچھ گچھ کے دوران بتایا کہ اُس نے یہ پسٹل عمران نامی بندے سے خریدا ہے!!!!
کانسٹیبل علی، عمران کو گرفتار کرکے لاتا ہے اور پوچھ گچھ کے دوران عمران بتاتا ہے کہ اُس نے پسٹل رفاقت نامی شخص سے خریدا ہے!!! ملزم عمران کو بھی ایس ایچ او رضوان چالیس ہزار کی ڈیل کے بعد چھوڑ دیتا ہے !!! اب رفاقت کی گرفتاری اور “ رہائی” کی باری تھی
دوسرے دن انور سے ایک
لاکھ کا بندوبست نہیں ہوسکا اس پر ایس ایچ او صاحب بُہت ناراض ہوئے اور انور اور
رفاقت کو گرفتار کرنے اُن کے گھر پر چلے گئے!!! انور کا ایک بھائی پاک فوج میں
کمانڈو ہے وہ بھی اُس وقت گھر پر موجود تھا!!! گھر پر ایس ایچ او اور انور والوں کی
تقرار ہوگئی!!!
اہل محلہ بھی جمع
ہوگئے اُن لوگوں نے ایس ایچ او اور کانسٹیبل علی کو پکڑ کر بٹھا لیا کہ ایک لاکھ
روپیہ کس چیز کا لینے آئے ہو !!!! ایس ایچ او رضوان نے 15 پر فون کرلیا !!! 15 سے Elite force کی تین چار گاڑیاں انور کے گھر پہنچیں اور Elite force کے جوانوں نے سب بندوں کو مار مار کر گاڑیوں
میں ڈالا اسی دوران انور کے بزرگ والدہ اور بھابی کو بھی مارا گیا
تھانے آکر ایس ایچ رضوان نے سب کی اچھی طرح سے دُھلائی کی یہاں تک کہ انور ورک اور دوسرے گرفتار شُدہ افراد کو پیچھے سے پیٹرول بھی ڈالا گیا اور سب کے خلاف کار سرکار میں مُداخلت کا پرچہ دے دیا گیا !!! پرچے میں عورتوں کے نام بھی ڈال دیئے گئے
پولیس کے بے پناھ تشدد
کی وجہ سے انور اور دیگر ساتھیوں جس میں
فوج کے حاضر سروس جوان بھی تھے اُن کی حالت خراب ہوگئی!!! دوسرے دن انور کے رشتیداروں
نے ایس ایچ او رضوان سے رابطہ کیا !!!
رضوان نے مُبینہ طور پر اُن سے پانچ لاکھ روپیہ کا مطالبا کیا !!!! تھانے سے مایوس
ہوکر انور کے رشتداروں نے ہائیکورٹ میں پٹیشن داخل کردی: ہائیکورٹ نے ایس ایچ او
کو نوٹس کردیا کہ ملزمان کو ہائیکورٹ میں پیش کیا جائے !!!!
ایس ایچ او رضوان
نے ڈی پی او کو بتایا کہ عدالت کا ریڈ نہ ہوجائے اور ڈی پی او کی رضامندی سے
ملزمان کو تخت محل تھانہ میں منتقل کردیا گیا !!!!
تھانہ تخت محل کے ایس
ایچ او نے جب دیکھا کہ ملزمان کی حالت خراب ہے اور سارے لوگ پولیس کے تشدد کی وجہ
سے زخمی ہیں تو ایس ایچ او تخت محل نے ملزمان کو سول ہسپتال بھاولنگر میں چھوڑ کر
چلا گیا:
جیساکہ پولیس تشدد
کی وجہ سے زخمیوں میں فوج کے جوان بھی تھے انھوں نے ہسپتال سے اپنے یونٹ کمانڈر سے
فون پر رابطہ کیا اور یونٹ کمانڈر سول ہسپتال پہنچ گیا اور اُس کو ساری صورت حال
کا وہاں پتہ چلا اور اُس نے اپنے سینئر کمانڈ کو ساری صورت حال کا بتایا !!!!
فوج کے سینئر
افسران نے ہسپتال میں زخمیوں سے معلومات لیں اور انور کی والدہ، والد اور بہن کو Elite کے جوانوں زردکوب کیا تھا اور اُن کو لاتین
ماری گئی تھیں اُن سے بھی پوچھ گچھ کی گئی اور بعد میں فیصلہ کیا گیا کہ ان کا بھی
وہی حشر کیا جائے جس طرح پولیس نے کیا ہے !!!!!
اُس کے بعد فوج کا کیا ردعمل آیا اُس کے متعلق کچھ لکھنے کی اسلیئے ضرورت نہیں کہ لوگ سوشل میڈیا پر سب کچھ دیکھ چُکے ہیں:!!!!
ہر عمل کا ردعمل ہوتا ہے !!!! اب یہ فیصلہ قارئین نے کرنا ہے کہ قصور وار کون ہے !!!! ایسے واقعات ایسے اضلاع میں ہوتے ہیں جہاں کے ڈی پی او یا ایس ایس پی صآحبان سائلوں سے دور بھاگتے ہیںُ- تھانے کا ایس ایچ او یہ سب کچھ کررہا ہے اور اُس کو روکنے ٹوکنے اور لگام دینے والا ڈی پی او آگر اُس کے ساتھ کھڑا ہو تو اس قسم کا ردعمل آنا قدرتی بات ہے!!!!
Delve into the intricate web of corruption and abuse of authority revealed in the Bahawalnagar incident. Explore the lessons unlearnt and the imperative for institutional reform in our society.
In the grand tapestry of governance, justice, and power, there emerge moments that transcend mere events, encapsulating the very essence of societal malaise. The Bahawalnagar incident, as recounted by former SSP Niaz Ahmad Khosa, stands as a poignant testament to the labyrinthine complexities of corruption, complicity, and the erosion of authority that pervade the fabric of our nation.
As we peel back the layers of deception, we are confronted with the harsh realities that lie beneath the veneer of propriety. The narrative unfolds to reveal the symbiotic relationship between those entrusted with upholding the law and those who exploit it for personal gain. At its core lies the story of SHO Rizwan, once a beacon of law enforcement, now a casualty of moral decay.
Rizwan's ascent from the ranks of a humble constable to the pinnacle of a police station epitomizes the systemic failures that plague our institutions. His partnership with Constable Ali, forged in the crucible of shared experiences, devolved into a cesspool of corruption and malfeasance.
Each transaction of justice for sale further tarnished the integrity of the system, leaving behind a trail of betrayal and moral bankruptcy. From the illicit arms trade to the arbitrary arrest of suspects, Rizwan's actions painted a bleak portrait of institutional decay, where the very guardians of justice had become its perpetrators.
Yet, it is not solely the actions of individuals that warrant scrutiny, but the complicity of the establishment itself. The unholy alliance between the police and the elite served as a catalyst for the brutalization of innocent civilians, exposing the festering rot within our corridors of power.
No comments