ریاستِ بُحران عرف پاکستان لاپرواہ خداوند ہیں یہ ملک چلانے والے۔ جنہیں عوام کا درد نہیں صرف اقتدار، جائداد، عیاشی کے شوقین جنہوں نے...
ریاستِ بُحران عرف پاکستان
لاپرواہ خداوند ہیں یہ ملک چلانے والے۔ جنہیں عوام کا درد نہیں صرف اقتدار، جائداد، عیاشی کے شوقین جنہوں نے کبھی اپنے گھر کے افراد کو عزّت نا دی وہ اس ملک کو کیا دیں گے؟
فواد چودھری جو پی ڈی ایم کے لئے کہتے تھے کہ "بھان
متی نے کنبہ جوڑا ، کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا" لیکن اب تو سب کے ہی اٹھائي
گیرے ہیں۔ کیا شہباز شریف اور کیا مریم
نواز، مراد علی شاہ وہی پرانے ، وہی خزانے وہی مواخزے کے پیمانے ۔ کمرشل وفاقی
ادارے عسکری قوّتوں کے سر، سندھ کی زمینیں انڈس رینجرز اور فوج کے قبضے میں۔ پنجاب
پولیس عوام کو لوٹنے میں پوری، سندھ پولیس ہاتھ جوڑے بھیک مانگنے میں۔ عدالتی نظام
142/130 معیار پر ذلّت و رسوائی کا سبب، ہفتے بیتے ٹوئٹر ایکس کو بند ہوئے اب
فیسبک پر بھی لوڈ شیڈنگ ہے۔ عوام نا ہاتھ اٹھائے نا شور مچائے اور غلطی سے سیاست
دان شہری حدود سے گزریں تو ان کے کپڑے پھاڑے۔ عوام گوادر سے گلگت تک ایسی جاگی ہے
کہ "رہے نام سائیں کا" یہ خوف یہ ڈر، اور دروازے چاچا رمضان کی دستک ،
شیطان بھی 1 مہینے کی چھٹی کے انتظار میں لیکن یہ سرکاری و سیاسی کردار 24 گھنٹے
مصروف ہیں صرف عوام کے کپڑے اتارنے میں
اور اب عوام کی زبان کا پردہ بھی اتر گیا ہے جو فحش زبان اب عوام نے اختیار کی ہے
اگر 1958 میں کرلیتی تو یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔
آج بھی یہ ملک نازک موڑ سے گزر رہا ہےپتہ نہیں موڑ مڑے گا
کب؟
عوام کو حل سے زیادہ ہل چلانے میں دشواری ہے، کیونکہ ڈیزل
مہنگا ہے، اور کھاد کے نرخ سونے کے بھاؤ پر ہیں۔ اتنی کمائی ہیروئن میں نہیں ہے
جتنا پاکستان میں اسلامی بینکنگ ، پٹرول و کھاد کے کام میں ہے ۔ اور اگر کسی جرنیل
سے یاری ہے تو یہ پورا ملک آپ کے قدموں اور غریب کی عزّت جوتی کے نیچے۔ کبھی خود
کو اتنا مجبور پایا ہی نہیں جتنا اس دور میں ہیں۔ مجھے جوانی میں مشرّف کا دور سب
سخت لگا جب لوگ سہمے رہتے تھے لیکن اب ڈر رہتا
کہ کہیں بھوک سے نا مرجاؤں میرے سر پر چھت بھی باقی رہے گي یا نہیں۔ یا میں
یوں ہی ذلّت و خواری کی زندگی گزاروں گا۔ یا بستر مرگ ہی دنیا سے کوچ کروں گا۔
اچھے وقت کا انتظار اب دم توڑ گیا ۔
The article paints a grim picture. Fawad Chaudhry, once a vocal critic of his political opponents, now embodies the very system he condemned. The same old faces, the same promises, the same disappointing results. The rot runs deep, infecting institutions meant to serve the people. Federal institutions are politicized, the military holds sway in certain regions, and police forces are notorious for corruption rather than upholding the law.
The frustration extends beyond the halls of power. The justice system, once a beacon of hope, is now a source of humiliation. Social media, a potential platform for dissent, is increasingly censored. Yet, the silence has broken. The people, from Gwadar to Gilgit, have awakened. The fear that kept them subdued is slowly giving way to a righteous anger. The veil of polite language has been ripped away, replaced by a raw expression of discontent.
The economic situation adds fuel to the fire. Farmers struggle with skyrocketing diesel and fertilizer prices. Islamic banking and black-market ventures become more lucrative than legitimate work. The specter of hunger hangs heavy over the nation. People no longer dream of a better tomorrow; they simply yearn for survival.
The author paints a poignant comparison. While they acknowledge the difficulties of General Musharraf's era, at least a sense of security prevailed. Today, the fear of hunger and homelessness overshadows any past hardship. The optimism of youth has been replaced by a chilling resignation.
The question remains: When will the tide turn? The article offers no easy answers. The problems seem insurmountable, with more grievances than solutions. Yet, a flicker of hope remains. The author acknowledges the rising anger of the people. Perhaps, this collective frustration can be channeled into a force for positive change.
Pakistan's future hangs in the balance. Will the political elite heed the cries of their people? Or will the nation succumb to the weight of its own problems? Only time will tell.
No comments