اسمِ اعظم کا راز: ایک پراسرار محفل رات گہری ہو چکی تھی، سرد ہوا کے جھونکے وقتاً فوقتاً کمرے کی کھڑکیوں سے ٹکرا کر سنسناہٹ پیدا کر رہے تھے۔...
اسمِ اعظم کا راز: ایک پراسرار محفل
رات گہری ہو چکی تھی، سرد ہوا کے جھونکے وقتاً فوقتاً کمرے کی کھڑکیوں سے ٹکرا کر سنسناہٹ پیدا کر رہے تھے۔ بریگیڈیئر فخر خان کا کشادہ اور پراسرار کمرہ سرمئی روشنی میں ڈوبا ہوا تھا۔ کمرے کے چاروں طرف لگی کتابوں کی الماریاں علم کے خزانوں سے بھری تھیں اور ان پر دھیما زرد بلب ایک الگ سی معنویت بکھیر رہا تھا۔
فخر خان نے اپنے قریبی دوستوں کو آج خاص مقصد کے لیے مدعو کیا تھا۔ ان میں پروفیسر عبدالرؤف، ڈاکٹر مظہر الحق، اور علی احمد شامل تھے—سب اپنے اپنے شعبوں کے ماہر اور زندگی کے تلخ و شیریں تجربات سے لبریز۔ لیکن آج کے موضوع نے ان سب کو سنجیدگی کی ایک نئی گہرائی میں ڈبو دیا تھا۔
کمرے کے درمیان چائے کی بھاپ میں لپٹی ایک محفل جاری تھی، جہاں ہر کوئی ایک عجیب کشمکش میں مبتلا تھا۔ فخر خان نے خاموشی توڑتے ہوئے مدھم مگر مضبوط لہجے میں کہا، "میرے دوستو، میں ہمیشہ سے ایک بات پر سوچتا آیا ہوں… وہ ہے 'اسمِ اعظم'۔ سنا ہے کہ یہ ایک ایسا علم ہے جسے جاننے والا ہر مسئلے پر قابو پا لیتا ہے۔ مجھے جاننے کا اشتیاق ہے کہ آیا یہ واقعی سچ ہے یا محض کہانیاں ہیں۔"
یہ سوال ہوا میں معلق رہ گیا، اور سب نے ایک دوسرے کی طرف سنجیدگی سے دیکھا۔ پروفیسر عبدالرؤف، جو علم و فلسفہ میں گہری دلچسپی رکھتے تھے، نے چہرے پر ایک مسکراہٹ کے ساتھ کہا، "فخر خان، اسمِ اعظم ایک ایسا راز ہے جو صدیوں سے انسان کو متجسس رکھے ہوئے ہے۔ یہ علم عام انسانوں سے دور اور صرف مخصوص لوگوں کے لئے ہے، جو اللہ کے نزدیک ہیں۔"
ڈاکٹر مظہر الحق، جو ہمیشہ عقلی دلائل سے بات کرتے تھے، نے ہنسی کو دباتے ہوئے کہا، "پروفیسر صاحب، آپ کی باتیں سن کر لگتا ہے کہ جیسے کسی داستان کا حصہ ہوں۔ میرے نزدیک یہ سب خیالی باتیں ہیں جب تک کہ اسے حقیقت کی دنیا میں نہ دیکھا جا سکے۔"
علی احمد، جو اپنی اولاد نہ ہونے کے باوجود ایک خوش مزاج انسان تھے، نے گہری سوچ میں ڈوبے ہوئے کہا، "مظہر، شاید کچھ چیزیں ہمیں محسوس کرنا ہوتی ہیں، اور ان میں دل کی گہرائیوں تک اترنے کی صلاحیت ہونی چاہیے۔ میرا ماننا ہے کہ ہر چیز کو جانچنے کے لئے عقل کافی نہیں، بعض باتوں کے لیے دل کو ماننا پڑتا ہے۔"
اسمِ اعظم کی حقیقت کے رازداں بلال شاہ کی آمد
اسی دوران، دروازے پر ایک دستک سنائی دی۔ فخر خان نے سنجیدگی سے کہا، "آو، دیکھتے ہیں کون ہے۔" دروازہ کھلا اور ایک نوجوان، بلال شاہ، کمرے میں داخل ہوا۔ فخر خان کے چہرے پر حیرت اور خوشی کی جھلک نظر آئی۔
پروفیسر عبدالرؤف نے سب کو بتایا، "یہ بلال شاہ ہیں، ہمارے پرانے دوست کے بیٹے ہیں۔ بلال، آج تمہاری آمد بھی ایک اتفاق ہے، ہم اسمِ اعظم کے بارے میں ہی بات کر رہے تھے۔ کیا تم نے کبھی اس کے بارے میں سنا ہے؟"
بلال نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ سب کو سلام کیا اور گویا ہوا، "اسمِ اعظم کے بارے میں میرے والد نے مجھے بچپن میں بتایا تھا۔ یہ کوئی عام بات نہیں، بلکہ ایک عظیم امانت ہے۔ جو اس علم تک پہنچتا ہے، اس کے دل میں سکون اور روشنی کی لہر دوڑتی ہے۔"
ڈاکٹر مظہر الحق نے طنزیہ انداز میں کہا، "بلال، یہ باتیں دل خوش کرنے کے لئے تو اچھی ہیں مگر حقیقت کی دنیا میں کوئی ٹھوس دلیل ہونی چاہیے۔"
بلال نے سنجیدگی سے کہا، "ڈاکٹر صاحب، بعض چیزیں دل کی گہرائیوں سے محسوس کی جاتی ہیں۔ میرے والد نے بتایا تھا کہ اسمِ اعظم وہ علم ہے جسے اللہ خود عطا کرتا ہے، اور یہ وہی پا سکتا ہے جو اللہ سے قربت حاصل کرنے کا شوق رکھتا ہو۔"
اسمِ اعظم کا راز اور آزمائش
فخر خان نے حیرت بھری آنکھوں سے بلال کی طرف دیکھا، "کیا ہمیں یہ علم حاصل کرنے کا کوئی طریقہ معلوم ہے؟"
بلال نے گہری سانس لی اور کہا، "یہ آسان راستہ نہیں ہے۔ اس علم تک پہنچنے کے لیے انسان کو اپنی انا، غصہ اور دنیاوی خواہشات کو ترک کرنا پڑتا ہے۔ اور یہ تبھی ممکن ہے جب انسان اپنے دل کو پاک کر لے اور اپنی زندگی اللہ کی رضا میں گزارنے لگے۔"
پروفیسر عبدالرؤف نے دلچسپی سے کہا، "بلال، اگرچہ تمہاری باتیں بہت دلچسپ ہیں، مگر یہ تو بہت مشکل کام لگتا ہے۔ کیا واقعی کوئی انسان ایسا کر پاتا ہے؟"
بلال نے نرمی سے کہا، "ہاں، پروفیسر صاحب، وہ لوگ جو اللہ کی قربت کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیتے ہیں، ان کے لیے دنیاوی مشکلات کچھ نہیں ہوتیں۔ اللہ انہیں اس علم تک پہنچنے کی راہ دکھاتا ہے، اور وہ لوگ سکون کے خزانے پا لیتے ہیں۔"
روحانیت کی طرف سفر کی ابتدا
فخر خان نے عزم بھری آنکھوں سے بلال کی طرف دیکھا اور کہا، "بلال، میں واقعی اس راستے کو اپنانا چاہتا ہوں۔ میرے دل میں ایک خلا ہے جسے کچھ بھی نہیں بھر پا رہا۔ کیا ہم سب اس سفر پر چلنے کی کوشش کر سکتے ہیں؟"
بلال نے سر ہلاتے ہوئے کہا، "ضرور، مگر یہ یاد رکھیں کہ یہ سفر مشکل ہے اور صبر و حوصلے کا متقاضی ہے۔ اگر آپ لوگ واقعی دل کی گہرائیوں سے اللہ کے قریب ہونا چاہتے ہیں، تو رات کے وقت تہجد میں اللہ سے دعا کریں۔ یہ وقت وہی ہے جب اللہ اپنے بندوں کی پکار سنتا ہے اور ان کے دلوں کے راز جانتا ہے۔"
اختتام اور نئے سفر کا آغاز
یہ رات سب کے لیے ایک انقلابی رات ثابت ہوئی۔ فخر خان، پروفیسر عبدالرؤف، ڈاکٹر مظہر الحق، اور علی احمد کے دلوں میں ایک نئی روشنی بھر گئی۔ انہوں نے تہیہ کر لیا کہ وہ اسمِ اعظم کی حقیقت کو پانے کے لئے اللہ کی طرف قدم بڑھائیں گے۔ ان کے دلوں میں ایک نیا جوش اور سکون کی تمنا جاگ اٹھی۔
بلال صاحب نے قصّہ شروع کیا:
"یہ واقعہ مولائے کائنات حضرت علی علیہ السّلام کے زمانے کا ہے۔ مکہ مکرمہ میں ایک نوجوان نے اپنے والد سے ان کا مال بغیر اجازت خرچ کرنا شروع کر دیا۔ دونوں کے درمیان اس بات پر سخت جھگڑا ہوا۔ بات اتنی بڑھی کہ بیٹے نے اپنے والد کو نہایت ذلت کے ساتھ دھکے دے کر گھر سے نکال دیا۔ بےچارے والد خانۂ کعبہ کے پاس پہنچے اور وہاں اللہ کے حضور اپنے بیٹے کے لئے بد دعا کی کہ جن ہاتھوں سے اس نے انہیں دھکے دیے ہیں، اللہ اسے ان ہاتھوں سے محروم کر دے۔
یہ کہہ کر وہ اپنے گاؤں لوٹ گئے۔ اگلی صبح جب وہ لڑکا بیدار ہوا تو اس کے دونوں بازو مفلوج ہوچکے تھے؛ انہیں ذرا بھی حرکت نہیں دے پا رہا تھا۔ جیسے ہی اسے گزشتہ شام کے واقعات یاد آئے، اسے احساس ہوا کہ شاید یہ اس کے والد کی بددعا کا نتیجہ ہے۔ کچھ دنوں بعد، کسی نے اسے بتایا کہ اس کی تکلیف دراصل اس کے والد کی بددعا کا نتیجہ ہے، اور چونکہ انہوں نے خانۂ کعبہ کے پاس اللہ سے دعا کی تھی، اس لئے یہ عذاب اس پر نازل ہوا ہے۔
اس لڑکے نے اپنے والد کا پتہ کروایا اور معلوم ہوا کہ وہ تو گاؤں واپس چلے گئے ہیں۔ اس نے اپنے والد کو خط بھیجا جس میں اپنی غلطیوں پر شرمندگی کا اظہار کیا اور ان سے معافی کی التجا کی۔ اس نے یہ بھی لکھا کہ اگر وہ اسے معاف کردیں اور خانۂ کعبہ آکر اس کی شفا کے لئے دعا کریں تو شاید اس کے ہاتھ ٹھیک ہوجائیں۔
والد کو بیٹے پر ترس آیا اور انہوں نے پیغام بھیجا کہ انہوں نے اسے معاف کردیا ہے اور وہ مکہ واپس آکر اس کی شفا کے لئے دعا کریں گے۔ یہ سن کر لڑکا بہت خوش ہوا۔ مگر کچھ دن بعد خبر آئی کہ اس کے والد سفر میں ہی انتقال کرگئے ہیں، اور اب اس کے ہاتھ کبھی ٹھیک نہیں ہو سکیں گے۔ یہ سن کر لڑکے کے دل پر پہاڑ ٹوٹ گیا۔ اس نے والد کا آخری خط لیا اور خانۂ کعبہ پہنچ کر اللہ کے حضور روتے ہوئے اپنے گناہ کی معافی مانگنے لگا۔ وہ طواف کرتے ہوئے نہایت عاجزی اور بے بسی کے ساتھ دعا کر رہا تھا، مگر اس کی دعا قبول نہ ہوئی۔
اسی دوران حضرت علی علیہ السّلام وہاں تشریف لائے اور اس شخص کو اس حال میں دیکھ کر اس کے پاس آئے۔ آپ نے اس سے پوچھا کہ کیوں اس قدر نالہ و فریاد کر رہے ہو؟ اس نے مولائے کائنات کو اپنی پوری داستان سنائی۔ حضرت علی علیہ السّلام نے اس کی بات سننے کے بعد اسے ایک خاص دعا بتائی اور فرمایا کہ عشاء کی نماز کے بعد اس دعا کو دل سے پڑھو اور اللہ سے شفا طلب کرو۔ یہ کہہ کر آپ وہاں سے تشریف لے گئے۔
اس شخص نے حضرت علی علیہ السّلام کی بات مانی اور عشاء کی نماز کے بعد اس دعا کو دل سے پڑھا۔ اگلی صبح جب وہ اٹھا تو اس کے ہاتھ بالکل ٹھیک ہوچکے تھے، جیسے کبھی کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔ خوشی سے جھومتا ہوا وہ دوبارہ خانۂ کعبہ پہنچا، مگر وہاں حضرت علی علیہ السّلام کو نہ پا سکا۔ اس دوران اس کی ملاقات امام حسن علیہ السّلام سے ہوئی۔ اس نے انہیں اپنی داستان سنائی اور بتایا کہ حضرت علی علیہ السّلام کی بتائی ہوئی دعا میں ضرور اللہ کا کوئی اسم اعظم موجود ہے، جس سے ناممکن مسئلہ حل ہوگیا۔
امام حسن علیہ السّلام نے اس سے فرمایا کہ یہ دعا دراصل دعائے مشلول کے نام سے معروف ہے۔ اس میں اللہ کے 99 اسماء شامل ہیں، اور ان میں سے کوئی ایک اسم، اسم اعظم ہے، جس کا علم صرف اہلبیت علیہ السّلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہے۔"
کہانی کا پیغام:
یہ قصہ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ والدین کے ساتھ حسنِ سلوک اور عاجزی اختیار کرنی چاہیے، ورنہ ان کی دل آزاری کے اثرات سے بچنا ممکن نہیں۔ دعائے مشلول ایک خصوصی دعا ہے، جس کے ذریعے اللہ سے مدد طلب کی جاتی ہے، اور یہ دعا ہمیں اللہ کے 99 اسماء کے ساتھ اس کی عظمت اور رحمت کی طرف رجوع کرنے کا درس دیتی ہے۔
رات کے آخری پہر میں سب دوست اپنے اپنے گھروں کو لوٹتے ہوئے ایک عزم کے ساتھ دل میں دعا کر رہے تھے کہ اللہ ان کے دلوں کو پاک کرے اور انہیں اپنی قربت عطا فرمائے۔
اسمِ اعظم کے راز کو جاننے کی کوشش میں بریگیڈیئر فخر خان اور ان کے دوستوں کا روحانی سفر۔ یہ کہانی سنیں اور جانیں کہ کس طرح ایک رات کی محفل نے ان کی زندگی کو بدل ڈالا۔
No comments