Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE

Grid

GRID_STYLE

Hover Effects

TRUE

Latest:

latest

اسرائیل-فلسطین تنازعہ، جنگی اخراجات، اور عالمی امن معاہدات - The Geopolitical Landscape of the Israel-Palestine Conflict: Future Predictions and Global Implications

  اسرائیل-فلسطین تنازعہ، جنگی اخراجات، اور عالمی امن معاہدات سیّد سلمان مہدی حالیہ جنگی صورتحال اور امریکہ کی امداد اکتوبر 2023 سے اسر...

 

اسرائیل-فلسطین تنازعہ، جنگی اخراجات، اور عالمی امن معاہدات

سیّد سلمان مہدی

حالیہ جنگی صورتحال اور امریکہ کی امداد

اکتوبر 2023 سے اسرائیل اور فلسطینی مزاحمتی گروہوں کے درمیان جاری تنازعہ میں شدت آگئی ہے، جس کے نتیجے میں اسرائیل کو امریکی حکومت کی جانب سے 97 ارب ڈالر کی غیرمعمولی مالی امداد ملی ہے۔ اس امداد کا مقصد اسرائیل کی دفاعی صلاحیتوں کو بہتر بنانا، اور خطے میں ایران، حماس، اور حزب اللہ کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے خلاف حکمت عملیوں کو مضبوط کرنا ہے۔ امریکہ یومیہ 100 ملین ڈالر کی اضافی مالی امداد فراہم کر رہا ہے، جسے اسرائیل مختلف عسکری ضروریات اور خصوصی فوجی کاروائیوں میں استعمال کر رہا ہے۔

یہ امداد، اسرائیل کی عسکری طاقت میں اضافہ اور خطے میں توازن کو قائم رکھنے کے حوالے سے اہم کردار ادا کر رہی ہے، لیکن اس کے باوجود خطے میں امن کی صورت حال دن بدن خراب ہوتی جا رہی ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ اسرائیل کی جارحانہ حکمت عملی ہے، جس میں حماس اور حزب اللہ جیسے گروہوں کے خلاف شدید عسکری کاروائیاں شامل ہیں۔ اس مسلسل تصادم نے نہ صرف فلسطین اور اسرائیل بلکہ مشرق وسطیٰ کے بیشتر ممالک کو بھی جنگی فضا میں مبتلا کر رکھا ہے۔



ایٹمی حملے اور موازنہ: جاپان اور اسرائیل-فلسطین تنازعہ

1945 میں دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر، امریکہ نے جاپان کے شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی بم گرائے۔ ان حملوں نے جاپان کی جنگی صلاحیت کو مکمل طور پر ختم کر دیا، اور جنگ کے فوری خاتمے کا سبب بنے۔ اس وقت کے جنگی حالات کے برعکس، آج کے دور میں اسرائیل-فلسطین تنازعے کے حل کے لیے ایٹمی حملوں جیسے فوری اور تباہ کن اقدامات کا استعمال ممکن نہیں بلکہ طویل المدتی جنگی اخراجات اور جدید ہتھیاروں کا استعمال ہو رہا ہے۔ اسرائیل کو دی جانے والی امریکی امداد خطے میں ایک مسلسل تنازعے کو ہوا دے رہی ہے، جس کے نتیجے میں لاکھوں فلسطینی مصائب کا شکار ہیں۔

ایٹمی حملے کے برعکس، اسرائیل اور فلسطین کے تنازعے میں زمینی حقائق پر لڑائی جاری ہے، جہاں دونوں جانب سے انسانی جانوں کا ضیاع اور عسکری تصادم معمول بن چکے ہیں۔ حالانکہ ایٹمی حملے کے بعد جاپان نے ہتھیار ڈال دیے تھے، لیکن اسرائیل-فلسطین تنازعے میں کوئی بھی فریق پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں، اور عالمی طاقتوں کی طرف سے مسلسل امداد کے باوجود تنازعہ کا کوئی واضح حل نظر نہیں آتا۔



امن کی کوششیں: ایران-سعودی عرب امن معاہدہ اور چین-بھارت ثالثی

2023 میں چین نے مشرق وسطیٰ کی دو اہم مسلم طاقتوں، ایران اور سعودی عرب، کے درمیان ایک تاریخی امن معاہدہ کرایا۔ دہائیوں سے جاری پراکسی جنگوں اور سیاسی اختلافات کے پس منظر میں، یہ معاہدہ خطے میں استحکام کی ایک بڑی کوشش کے طور پر سامنے آیا۔ چین نے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے مثبت کردار ادا کیا۔ اس امن معاہدے کے بعد مشرق وسطیٰ میں امن کی امید پیدا ہوئی ہے، خصوصاً یمن، عراق، اور شام میں جہاں ایران اور سعودی عرب کے حمایت یافتہ گروہوں کے درمیان تصادم کی صورتحال تھی۔

اسی طرح، برکس ممالک کے پلیٹ فارم پر روس نے 2023 میں چین اور بھارت کے درمیان سرحدی تنازعات کو حل کرنے کی ایک بڑی کوشش کی۔ چین اور بھارت کے تعلقات طویل عرصے سے سرحدی جھڑپوں اور سیاسی اختلافات کی وجہ سے کشیدہ تھے، لیکن روس کی ثالثی میں ہونے والے اس امن معاہدے نے دونوں ممالک کو سرحدی تنازعات کے حل اور اقتصادی تعلقات میں بہتری کی طرف قدم بڑھانے کا موقع فراہم کیا۔ یہ معاہدہ برکس کے سیاسی و اقتصادی اتحاد کو مزید مستحکم کرنے میں اہم ثابت ہوا۔


اسرائیل-فلسطین تنازعہ اور عالمی امن کی ضرورت

ایران-سعودی عرب اور چین-بھارت امن معاہدات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ تنازعات کے حل کے لیے عسکری اقدامات کے بجائے سفارتی کوششیں زیادہ موثر ثابت ہو سکتی ہیں۔ اسرائیل-فلسطین تنازعے میں عالمی طاقتیں، خصوصاً امریکہ، مسلسل امداد فراہم کر رہی ہیں، جس سے اسرائیل کو جنگ جاری رکھنے کی قوت مل رہی ہے۔ لیکن اگر عالمی برادری اسرائیل-فلسطین تنازعے کے حل کے لیے ایران-سعودی عرب اور چین-بھارت معاہدوں کی طرز پر سفارتی کوششوں کو ترجیح دے تو شاید اس دیرینہ مسئلے کا حل نکالا جا سکے۔

ایران اور سعودی عرب کے درمیان چین کی ثالثی، اور روس کی جانب سے چین-بھارت تعلقات میں بہتری، اس بات کی علامت ہیں کہ عالمی سطح پر طاقت کا توازن تبدیل ہو رہا ہے۔ ان معاہدات نے برکس اور چین کو ایک متبادل سیاسی قوت کے طور پر پیش کیا ہے، جو خطے میں امن اور استحکام کے فروغ کے لیے کام کر رہی ہے۔



دہشت گردی اور آزادی کی نظریاتی جنگ: سعودی عرب اور ایران کا موقف

ایران اور سعودی عرب کے درمیان مشرق وسطیٰ میں مختلف عسکری گروہوں پر نظریاتی اختلافات بہت گہرے ہیں۔ ایران حماس، حزب اللہ، اور حوثی تحریک کو آزادی کی جنگ لڑنے والے گروپوں کے طور پر دیکھتا ہے اور ان کی مدد کرتا ہے۔ ایران کا موقف ہے کہ یہ گروہ اسرائیلی اور سعودی جارحیت کے خلاف اپنی آزادی اور حقوق کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ اس نظریے کے مطابق، حماس فلسطینیوں کی خودمختاری کے لیے اسرائیل کے خلاف برسرِ پیکار ہے، حزب اللہ لبنان میں اسرائیلی اثرات کے خلاف مزاحمت کر رہی ہے، اور حوثی یمن میں سعودی اتحاد کی مداخلت کو روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

دوسری طرف سعودی عرب اور اسرائیل ان گروہوں کو دہشت گردی کے علمبردار سمجھتے ہیں۔ سعودی عرب کا کہنا ہے کہ حوثی یمن میں بدامنی پھیلا کر علاقائی استحکام کو خطرے میں ڈال رہے ہیں، اور اسرائیل حماس اور حزب اللہ کو اپنے وجود کے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔ یہ نظریاتی اختلاف نہ صرف خطے کی سیاست کو متاثر کر رہا ہے بلکہ اسے عالمی سطح پر بھی عسکری طاقتوں اور امن معاہدات میں پیچیدگی پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے۔

یمن کی جنگ اور ایران-سعودی پراکسی جنگ

یمن میں جاری تنازعے کو ایران اور سعودی عرب کی پراکسی جنگ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ 2015 میں سعودی عرب نے یمن میں حوثیوں کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا، جو ملک میں شیعہ گروہ ہونے کے ناطے ایران کے قریب سمجھے جاتے ہیں۔ سعودی عرب کا ماننا ہے کہ حوثی خطے میں ایرانی اثرات کو بڑھانے کا ذریعہ ہیں اور وہ یمن کے ذریعے سعودی سرزمین کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ اس کے برعکس، ایران حوثیوں کی مدد کو ایک آزادی پسند تحریک کے طور پر دیکھتا ہے جو یمن میں سعودی مداخلت کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں۔

یمن میں ہونے والی جنگ نے لاکھوں انسانوں کی جانیں لیں اور اسے دنیا کے بدترین انسانی بحران میں سے ایک بنا دیا۔ اس تنازعے نے بین الاقوامی برادری کو اس مسئلے کے حل کے لیے بارہا کوششوں پر مجبور کیا، لیکن سعودی عرب اور ایران کے نظریاتی اختلافات امن کے قیام میں ایک بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔


تاریخی اور عالمی پس منظر: دہشت گردی، نسل کشی، اور آزادی کی جنگیں

تاریخی طور پر دنیا میں بہت سی ایسی مثالیں ہیں جہاں ایک گروہ کو دہشت گرد جبکہ دوسرے کو آزادی کا علمبردار سمجھا گیا۔ مثال کے طور پر، کُو کلُکس کلان (Ku Klux Klan) امریکہ میں ایک متشدد گروپ کے طور پر سامنے آیا، جس نے نسلی بنیادوں پر دیگر گروہوں کے خلاف تشدد کا راستہ اپنایا اور اسے اپنے نظریے کے مطابق جائز سمجھا۔ ان کی نسل پرستی اور ظلم نے امریکہ میں دیگر قوموں اور طبقات کے لیے ایک خوف کی فضا پیدا کی اور انہیں شدت پسندی کا نشان بنا دیا۔

دوسری طرف، چے گویرا (Che Guevara) جیسے انقلابی کو عالمی سطح پر ایک مزاحمتی ہیرو سمجھا گیا، حالانکہ ان کے اقدامات کو مختلف زاویوں سے دہشت گردی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ چے گویرا نے لاطینی امریکہ میں حکومتی اداروں کے خلاف مسلح جدوجہد کی، اور ان کی انقلابی تحریکوں کو بہت سے لوگوں نے استحصالی قوتوں کے خلاف آزادی کی جدوجہد کا نام دیا۔

اسرائیل-فلسطین تنازعے میں بھی حماس اور حزب اللہ کو ایران آزادی کی جدوجہد کرنے والے قرار دیتا ہے جبکہ سعودی عرب اور اسرائیل انہیں دہشت گرد تصور کرتے ہیں۔ یہ نظریاتی اختلافات دنیا میں طاقت کے مختلف مراکز کو ابھارتے ہیں اور علاقائی سیاست پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔

عالمی امن کی کوششیں: ایران-سعودی عرب اور چین-بھارت امن معاہدے

2023 میں چین نے مشرق وسطیٰ میں دو اہم طاقتوں، ایران اور سعودی عرب کے درمیان امن معاہدہ کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان دہائیوں پر محیط پراکسی جنگوں اور اختلافات کے باوجود طے پایا اور اس نے مشرق وسطیٰ میں استحکام کی امید کو جنم دیا۔ ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی بحالی سے یمن جیسے ممالک میں ممکنہ استحکام کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔

اسی طرح، برکس کے پلیٹ فارم پر روس نے چین اور بھارت کے درمیان سرحدی تنازعات کو حل کرنے میں ثالثی کا کردار ادا کیا۔ بھارت اور چین کے درمیان تعلقات کافی کشیدہ تھے، لیکن اس معاہدے نے ایشیائی خطے میں امن کے قیام میں ایک مثبت قدم بڑھایا۔

یہ معاہدات یہ ثابت کرتے ہیں کہ عالمی سطح پر طاقت کا توازن تبدیل ہو رہا ہے اور برکس جیسے غیر مغربی اتحاد نہ صرف اقتصادی بلکہ سیاسی استحکام کے لیے بھی اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔

اسرائیل-فلسطین تنازعہ، دہشت گردی کی نظریات اور عالمی امن کا قیام

ایران-سعودی عرب کے درمیان امن معاہدہ، چین-بھارت تعلقات میں بہتری، اور امریکہ کی طرف سے اسرائیل کو مالی امداد کے باوجود اسرائیل-فلسطین تنازعے کا کوئی حتمی حل نظر نہیں آتا۔ خطے میں جاری دہشت گردی اور آزادی کی جدوجہد کی نظریاتی جنگ نہ صرف مشرق وسطیٰ بلکہ پوری دنیا میں ایک کشمکش کی فضا کو جنم دے رہی ہے۔

دنیا میں دہشت گردی اور آزادی کی جدوجہد کے مختلف زاویے موجود ہیں۔ ایران حماس، حزب اللہ اور حوثیوں کو آزادی کی جنگ لڑنے والے گروہ سمجھتا ہے جبکہ سعودی عرب اور اسرائیل انہیں اپنے لیے خطرہ تصور کرتے ہیں۔ یہی نظریاتی اختلافات عالمی سیاست پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں اور مشرق وسطیٰ میں ایک طویل عرصے سے جاری تنازعے کے حل میں بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔


نتیجہ

مشرق وسطیٰ اور ایشیائی خطے میں جنگی اخراجات اور عسکری حکمت عملیوں کے بجائے امن کی کوششیں عالمی استحکام کی راہ ہموار کر رہی ہیں۔ اسرائیل-فلسطین تنازعے میں امریکی امداد کی مد میں دی جانے والی خطیر رقم خطے کو مسلسل تنازعے میں مبتلا رکھے ہوئے ہے، لیکن ایران-سعودی عرب امن معاہدہ اور چین-بھارت تعلقات میں بہتری جیسے اقدامات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ تنازعات کو مذاکرات اور ثالثی کے ذریعے بھی حل کیا جا سکتا ہے۔

اگر عالمی برادری اسرائیل-فلسطین مسئلے کو حل کرنے میں اس طرز کی کوششوں کو اپنائے، تو نہ صرف مشرق وسطیٰ میں امن قائم ہو سکتا ہے بلکہ لاکھوں بےگناہ انسانوں کی زندگی کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ برکس اور چین جیسے نئے عالمی طاقتوں کا ابھرنا اس بات کا اشارہ ہے کہ امن کے قیام کے لیے مغربی طاقتوں کے علاوہ دیگر ممالک بھی مؤثر کردار ادا کر سکتے ہیں، اور یہ عالمی تعلقات میں ایک نئے دور کا آغاز ہو سکتا ہے۔

مشرق وسطیٰ اور ایشیا میں جنگی اخراجات اور عسکری حکمت عملیوں کے بجائے امن کی کوششیں دنیا میں استحکام کی راہ ہموار کر رہی ہیں۔ اسرائیل-فلسطین تنازعے میں امریکی امداد کی مد میں دی جانے والی خطیر رقم خطے کو مسلسل تنازعے میں مبتلا رکھے ہوئے ہے، لیکن ایران-سعودی عرب امن معاہدہ اور چین-بھارت تعلقات میں بہتری جیسے اقدامات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ تنازعات کو مذاکرات اور ثالثی کے ذریعے بھی حل کیا جا سکتا ہے۔

اگر عالمی برادری اسرائیل-فلسطین مسئلے کو حل کرنے میں اس طرز کی کوششوں کو اپنائے تو نہ صرف مشرق وسطیٰ میں بلکہ عالمی سطح پر امن کا قیام ممکن ہو سکتا ہے۔ برکس اور چین جیسے نئے عالمی طاقتوں کا ابھرنا اس بات کا اشارہ ہے کہ مغربی طاقتوں کے علاوہ دیگر ممالک بھی مؤثر کردار ادا کر سکتے ہیں، اور یہ عالمی تعلقات میں ایک نئے دور کا آغاز ہو سکتا ہے۔

اگر اسرائیل فتح پاتا ہے

اگر اسرائیل اس تنازعے میں فتح حاصل کرتا ہے تو اس کا نتیجہ مشرق وسطیٰ میں اس کی حکمرانی اور اثر و رسوخ میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔ یہ کامیابی اسرائیل کو اپنی دفاعی حکمت عملیوں میں مزید تقویت بخشے گی اور ممکنہ طور پر فلسطینی سرزمین پر مزید قبضے اور استحصال کی راہ ہموار کر سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، عالمی سطح پر اسرائیل کے حامی ممالک کی تعداد میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے، جس سے اسرائیل کی سلامتی کی صورت حال میں بہتری آ سکتی ہے۔ تاہم، یہ صورتحال عرب ممالک میں اسرائیل کے خلاف جذبات کو بڑھانے اور ممکنہ طور پر ایک نئے تنازعے کی راہ ہموار کرنے کا سبب بن سکتی ہے، جس کے نتیجے میں مشرق وسطیٰ میں مزید عدم استحکام پیدا ہوگا۔

اگر حماس یا دیگر گروہ فتح پاتے ہیں

اگر حماس یا دیگر مزاحمتی گروہ فتح حاصل کرتے ہیں تو یہ مشرق وسطیٰ میں ایک نیا طاقتور تبدیلی کا آغاز کر سکتا ہے۔ اس کامیابی کے نتیجے میں فلسطینیوں کی خودمختاری اور حق خودارادیت کا خواب حقیقت بن سکتا ہے، جس سے عرب ممالک میں ان کے حامیوں کی تعداد میں اضافہ ہو گا۔ حماس کی فتح سے نہ صرف اسرائیل کے خلاف مزاحمت میں شدت آئے گی بلکہ اس کے حامی ممالک بھی ایک نئی حکمت عملی اپنائیں گے۔ اس سے بین الاقوامی تعلقات میں مزید پیچیدگیاں پیدا ہوں گی اور ممکنہ طور پر علاقے میں مزید جنگوں یا پرتشدد مظاہروں کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ مجموعی طور پر، یہ صورت حال خطے میں امن کے قیام کی کوششوں میں رکاوٹ بن سکتی ہے اور عالمی سیاست پر بھی اثر انداز ہو سکتی ہے۔

 Explore future predictions for the Israel-Palestine conflict, analyzing potential outcomes for both Israel and resistance groups, and their global implications.

No comments